Dr. Saleem Iqbal is originally from Kot Addu. He is a urologist in D.G Khan running a successful private practice. After graduation, Saleem moved to Lahore and worked at Lahore General Hospital until 1994. During this period, he did his postgraduate degree (MS) in Urology. His initial intention was to work in academic institution. However, after the sad unexpected death of his brother (at age 31), Saleem moved to D.G Khan that is close to his home town in order to provide support to his family. He got married in 1990, while working in Lahore. Allah has blessed Saleem with 2 sons. Apart from his medical career, Saleem has a great sense of collecting and enjoying nice Urdu poetry. He regularly shares it with N-28 friends. He had also written his well known afsana میں اور ڈاکٹر میشا during silver Jubilee preparation. Some of his collection that he posted in his emails is listed below. More will be placed on this page later.
Dr. Saleem Iqbal and his Wife at N28 Silver Jubilee Dec 2010
Saleem's Pictures from Nishtar Era
Saleem Iqbal's Urdu Emails on N-28 Forum
لو جی بھائی جان ہم بھی آ گے میدان میں اردو میں، بہت خوشی ہی سن کر کچھ نیے لوگوں کی دریافت کے بارے میں ،سلام ھو عزیز،طارق بھائی ٹانگوں والے اور تنویر کوجی آ یاں نوں ، ستے ہی خیراں ،نصر کے ا میل ادریس کا سن کر سخت خوشی ہی کہ ابّ کچھ لوگ ہممارے اس ام اس کا بھی جواب دینے والے بھی آ گۓ ،ورنہ ہمارا تو یہ حال تھا کہ
کوئی امید بار نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی نشتر کس منہ سے جاؤ گے " سارے" شرم تم کو مگر نہیں آتی سلیم اقبال
لے دے که وہی شخص ہے اس شہر میں اپنا دنیا کہیں اس کو بھی سمجھدار نہ کر دے
حیات لے کے چلو ،کائنات لے کے چلو چلو تو سارے زمانےکو ساتھ لے کے چلو
کھڑکی، چاند،کتاب اور میں مدت سے اک باب اور میں شب بھر کھیلیں آپس میں دو آنکھیں ،اک خواب اور میں موج اور کشتی ساحل پر دریا میں گرداب اور میں شام، اداسی، خاموشی کچھ کنکر ،تالاب اور میں ہر شب پکڑے جاتے ہیں گہری نیند،کتاب اور میں
سلیم اقبال
کاش خوشبو کی طرح درد بھی ہجرت کرتے قافلے راہ میں قدموں کے نشان چھوڑے گیے
نجانے کتنی مدّت سے ہے دل میں یہ عمل جاری ذرا سی ٹھیس لگتی ہے ذرا سے ٹوٹ جاتے ہیں
کچھ وعدے،قسمیں ،یادیں تھیں کچھ قہقہے تھے، فریادیں تھیں کچھ آنکھ میں آنسو آے تھے کچھ دھوکے تھے جو کھاے تھے اب پاس ہمارے کچھ بھی نہی کچھ لفظ مٹی تحریریں ہیں بس یادوں کی زنجیریں ہیں بس یہی میرا "اثاثہ " ہے اک دل جو دید کا پیاسا ہے
رنج ہے مجھ کو بے سبب میرا مجھ سے دل اٹھ گیا ہے اب میرا جان لے کر ہی جان چھوڑے گا دل کم بخت و مضطرب میرا میں نے تب بھی نہیں چھوا تھا اسے جب وہ میرا تھا،سب کا سب میرا اک سحر اور تیرے نام نثار اک چراغ اور جان بلب میرا میں تجھے ترک کر چکا ہوں گا بھید مجھ پر کھلے گا جب میرا حجر کی لو ذرا برڑہاتو سہی رقص ہو گا میاں،غضب میرا پیڑ اجداد ہیں مرے احمد اور پرندے حسب نسب میرا
آیا نہ تجھے راس کوئی گھر بھی قفس بھی آ اے دل کم ظرف کسی شہر میں بس بھی ٹھکرا کے جو آیا ہے سمندر کی سخاوت اب دشت مسافت میں گھٹاؤں کو ترس بھی میں پیاس کا صحرا کہ گزر گاہ ہوں تیری " تو ابر کی صورت ہے کبھی مجھ پہ برس بھی" محسن مجھے چھیڑیں گے بہت چاند،ندی،پھول "آیا نہ میرا یار اگر اب کے برس بھی
اب اس لڑائی میں ممکن ہے سر چلا جاۓ سو جس کو جان ہو پیاری وہ گھر چلا جاۓ یہ قاعدہ بھی پرندوں سے ہم نے سیکھا ہے تلاش رزق میں وقت سحر چلا جاۓ عجب جنوں میں مکاں سے نکل پڑا ہوں میں اور اب یہ سوچ رہا ہوں،کدھر چلا جاۓ ہماری بحث سمٹتی نظر نہیں آتی میرے خیال میں فی ا لحال گھر چلا جاۓ بضد رہا جو بغاوت پہ میرا دل تو پھر اسے کہوں گا بدن چھوڑ کر چلا جاۓ
سر چمن ،پس دیوار و در گیا پانی میرا نصیب ڈبو کر اتر گیا پانی پڑے ہیں پیڑوں کی شاخوں کو آشیانہ کیے ہمارے کچے گھروندوں میں بھر گیا پانی خبر نہیں اسے بچوں سے دشمنی کیا ہے جدھر گۓ مرے بچے، ادھر گیا پانی مرے خدا مجھے آنسو نظر نہیں آتے مرے خدا میری آنکھوں کا مر گیا پانی مرے نواح میں تھا اس قدر سکوت اجل کہ رات اپنی ہی دہشت سے ڈر گیا پانی میں چاہوں بھی تونہ آباد ہو سکوں شاید کچھ اس طرح مجھے برباد کر گیا پانی کئی دنوں سے مرے لوگ در بدر ہیں جواز کہ میری بستی میں آ کے ٹھہر گیا پانی